الجواب باسم ملھم الصواب
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم تحریر فرماتے ہیں:
“ووٹ کی مختلف حیثیتیں ہیں، اس کی حیثیت شہادت اور گواہی کی ہے کہ ووٹر جس امیدوار کو ووٹ دےرہا ہے اس کو ملک و قوم کا خیرخواہ سمجھتا ہے۔ اس کی حیثیت مشورہ کی ہے کہ ووٹر حکومتی نظم و نسق کے سلسلہ میں یہ مشورہ دیتا ہے کہ فلاں آدمی زیادہ بہتر اور قابل ہے۔ اس کی حیثیت سفارش کی ہے کہ ووٹر اپنے امیدوار کے لئے ایک اہم عہدہ اور ذمہ داری کی سفارش کرتا ہے۔ اور اس کی حیثیت وکیل نامزد کرنے کی ہے کہ ووٹ دینے والا سیاسی مسائل میں امیدوار کو اپنا نمائندہ نامزد کرتا ہے”۔
(“جدید فقہی مسائل” بتغیر: 1/302 تا 303)
اس لئے ناصرف یہ کہ ووٹ دینا چاہئے بلکہ اچھی طرح تحقیق کے بعد پوری ایمانداری سے دینا چاہئے۔
ووٹ دینے کو ناجائز سمجھنا ٹھیک نہیں۔ جس طرح کسی معاملے میں گواہی دینے کو ناجائز سمجھنا برا ہے اسی طرح ووٹ دینے کو ناجائز سمجھنا بھی نامناسب ہے۔
لما فی القرآن الکریم: (سورہ النساء: الآیہ:85)
من یشفع شفاعۃ حسنۃ یکن لہ نصیب منھا ومن یشفع شفاعۃ سیئۃ یکن لہ کفل منھا و کان اللہ علی کل شیئ مقیتا
و فی القرآن الکریم: (سورہ البقرہ: الآیہ: 282)
ولایاب الشھداء اذا مادعوا
و فی تفسیر القرطبی: (3/398، ط: داراحیاء التراث العربی)
قولہ تعالیٰ: ولایاب الشھداء اذا مادعوا… فالمسلمون مندوبون إلى معونة إخوانهم، فإذا كانت الفسحة لكثرة الشهود والأمن من تعطيل الحق فالمدعو مندوب، وله أن يتخلف لأدنى عذر، وإن تخلف لغير عذر فلا إثم عليه ولا ثواب له. وإذا كانت الضرورة وخيف تعطل الحق أدنى خوف قوي الندب وقرب من الوجوب، وإذا علم أن الحق يذهب ويتلف بتأخر الشاهد عن الشهادة فواجب عليه القيام بها
و کذا فی التفسیر المنیر (2/122، ط: امیرحمزہ کتب خانہ)
و کذا فی التفسیر المنیر (2/131، ط: امیر حمزہ کتب خانہ)
و کذا فی الصحیح لمسلم (2/77، ط: مکتبہ الحسن)
و کذا فی التفسیر المنیر (2/469، ط: امیرحمزہ کتب خانہ)
و کذا فی الموسوعہ الفقھیہ (26/253 الی 254، ط: علوم اسلامیہ)
و کذا فی الموسوعہ الفقھیہ (26/217، ط: علوم اسلامیہ)
و کذا فی القرآن الکریم (سورہ الحج: الآیہ: 30)
و اللہ اعلم بالصواب
کتبہ: محمد زکریا غفرلہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
11/07/1442/ 2021/02/24
جلد نمبر:23 فتوی نمبر:100