الجواب حامداً ومصلیاً
اس کی یہ بات ٹھیک نہیں ہے،جس طرح قرآن مجید کےالفاظ کوہاتھ لگاناجائزنہیں،اسی طرح خالی جگہ اور جلد کوبھی ہاتھ لگانا جائزنہیں،اس لیے کہ یہ بھی قرآن کے حکم میں ہیں۔البتہ اگر کسی دوسری کتاب وغیرہ میں قرآن پاک کے الفاظ کم اوردیگر مضامین زیادہ ہوں تو اس کی جلد اور خالی جگہ کو ناپاکی کی حالت میں چھونے کی گنجائش ہے۔
لما فی البدائع:(1/141،رشیدیہ)
إنما یکرہ مس الموضع المکتوب دون الحواشی لأنہ لم یمس القرآن حقیقۃ،والصحیح انہ یکرہ مس کلہ لان الحواشی تابعۃ للمکتوب،فکان مسھامساًللمکتوب
وفی الشامیہ: (1 /293 ،رشیدیہ)
قولہ ومسہ)ای القرآن ولو فی لوح أو درھم او حائط،لکن لا یمنع الا من مس المکتوب،بخلاف المصحف فلا یجوز مس الجلد وموضع البیاض منہ وقال بعضھم:یجوز،وھذااقرب الی القیاس،والمنع اقرب الی التعظیم کمافی البحر:ای والصحیح المنع کمانذکرہ
وکذا فی الفتاوی التاتارخانیة: (1 /270 ،فاروقیہ)
وکذا فی الھندیة: (1 /38 ،رشیدیہ)
وکذا فی الھدایة:(1/116،بشرٰی)
وکذا فی الجوہرة النیرة:(1/90،قدیمی)
وکذافی المحیط البرھانی:(1/219،بیروت)
وکذا فی الفقہ الاسلامی و ادلتہ:(1/626،رشیدیہ)
وکذافی تنویرالابصار مع الدرالمختار: (1 /172 ،رشیدیہ)
واللہ اعلم بالصواب
محمدامجدڈوگرغفرلہ ولوا لدیہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
25/2/2023/4/8/1444
جلد نمبر:29 فتوی نمبر: 42