سوال

طاہرشاہ نامی ایک شخص فوت ہوگیا اور اس کے ورثاء میں ایک زوجہ(بیوی)، چار بیٹے اور تین بیٹیاں تھی جبکہ مرحوم کا ترکہ ایک رہائشی مکان اور کچھ زمینوں پر مشتمل تھا۔زمینوں کی تقسیم تو ابھی تک نہیں کی گئی البتہ مکان ورثاء نے آپس میں تقسیم کرلیا ہے۔تمام ورثاء کے باہمی مشورہ سے چاروں بھائیوں کو ایک ایک حصہ دینے کے لیے مکان کے چار حصے کیے گئے، جبکہ میت کی بیوی اور بیٹیوں کے لیے خود میت کی بیوی ( ورثاء کی والدہ ) نے یہ فیصلہ کیا کہ ہر بھائی کے ذمہ ایک بہن ہے جس کو وہ اپنے مکان کے حصے میں سے حصہ دے گا، لہذا تین بھائیوں کہ ذمہ تین بہنوں کا حصہ ہوگیا جبکہ چوتھے بھائی کے ذمہ والدہ کا حصہ ہے مثلا: زید کے ذمہ ساجدہ، خالد کے ذمہ عابدہ، بکر کےذمہ زاہدہ اور عمر کے ذمہ اس کی والدہ کا حصہ ہے۔ اب ان چار بھائیوں میں سے جو بھی اپنا حصہ بیچے گا یا اگر نہیں بیچتا تو اس کی قیمت لگا کر اپنی اس مقررہ بہن کو حصہ دے گا۔ یہ سارا معاملہ ورثاء کے والدہ کی سرپرستی میں تمام ورثاء کی باہمی رضا مندی سے طے پایا ہے۔ پھر ان چار بھائیوں میں سے زید نے اپنے حصہ کا مکان بیچ دیا ہے۔اب مطلوبہ امر یہ ہے کہ زید اپنے اس مکان میں سے صرف اپنی اس متعلقہ بہن (ساجدہ) کو حصہ دے گا یا تمام بہنوں کو حصہ دینا پڑے گا؟ واضح رہے کہ ہر بھائی کے ذمہ ایک بہن کا حصہ لگانے میں بہنوں کی رضا مندی شامل ہے۔

جواب

الجواب حامداً ومصلیاً

صورت مسئولہ میں زید اپنے مکان میں سے صرف اپنی بہن ساجدہ کو حصہ دے گا۔

لما فی الھندیة: (4 /268،رشیدیہ )
اذا کانت الترکۃ بین ورثۃ فاخرجوا احدھم منھا بمال اعطوہ ایاہ والترکۃ عقار او عروض صح قلیلا کان ما اعطوہ او کثیرا
وفی السراجی:( 76 ،شرکة علمیہ )
ومن صالح علی شیئ من الترکۃ فاطرح سھامہ من التصحیح ثم اقسم ما بقی من الترکۃ علی سھام الباقین
وکذا فی الجوھرة:(2 /12، ) وکذا فی البنایہ:(9 /344 ،رشیدیہ )
وکذا فی مجمع الانھر: (4 /279،المنار ) وکذافی المحیط: (23 /325 ،بیروت )
وکذا فی البدائع: (5 /170 ،رشیدیہ ) وکذا فی الشامیہ :(10 /602 ،رشیدیہ )
وکذا فی التاتارخانیة:(14 /311 ،فاروقیہ ) وکذا فی المبسوط: (20 /181،دارامعرفہ )
وکذا فی تبیین الحقائق: (5 /126،امدادیہ ) وکذا فی البحرالرائق :(8 /36 ،رشیدیہ )
وکذافی المبسوط: (20 /181،دارالمعرفہ) وکذا فی حاشیة الشلبی علی تبیین الحقائق: (5 /26،امدادیہ )

واللہ اعلم بالصواب
سید ممتاز شاہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
2023/01/31/8/7/1444
جلد نمبر:28 فتوی نمبر:136

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔