الجواب حامداً ومصلیاً
صورتِ مسئولہ میں اگر وہ شخص اپنے دیگر ورثاء(بھتیجوں) کو مناسب حصہ دے چکا ہے تو اس کے لیے اپنی بقیہ جائیداد اپنی بیٹی کے نام کرنا درست ہے اور اس شخص کی طرف سے یہ اپنی بیٹی کے لیے ھبہ ہوگا۔
لما فی الدرالمختار: (5 /696 ،ایچ ایم سعید)
وفی الخانیۃ لا باس بتفضیل بعض الاولاد فی المحبۃ لانھا عمل القلب وکذا فی العطایاان لم یقصد بہ الاضرار وان قصدہ فسوی بینھم یعطی البنت کالابن عندالثانی وعلیہ الفتوی ولو وھب فی صحتہ کل المال للولد جاز واثم
وفی الھندیة: (1 /391 ،رشیدیہ)
ولو وھب رجل شیئالاولادہ فی الصحۃ ، واراد تفضیل البعض علی البعض فی ذالک لاروایۃ لھذا فی الاصل عن اصحابنا۔ وروی عن ابی حنیفۃ رحمۃ اللہ علیہ: انہ لا باس بہ اذاکان التفضیل لزیادۃ فضل لہ فی الدین، وان کانا سواء یکرہ، وروی المعلی عن ابی یوسف علیہ الرحمہ: انہ لا باس بہ اذالم یقصد بہ الاضرار، وان قصد بہ الاضرار سوی بینھم یعطی الابنۃ مثل مایعطی للابن وعلیہ الفتوی
وکذافی البدائع:(5/175،رشیدیہ)
وکذافی شرح المجلة:(3/362،رشیدیہ)
وکذافی البحرالرائق: (7 /490 ،رشیدیہ)
وکذافی الفقہ الاسلامی و ادلتہ:(5/4013،رشیدیہ)
وکذافی الفتاوی التاتارخانیة: (14 /462 ،فاروقیہ)
وکذافی الفتاوی التاتارخانیة: (14 /423 ،فاروقیہ)
وکذافی تنویرالابصار مع الدرالمختار: (12 /553 ،رشیدیہ)
وکذافی فتاوی قاضی خان علی ھامش الھندیة :(3/279،رشیدیہ)
واللہ اعلم بالصواب
سید ممتاز شاہ بخاری
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
2023/3/25/3/9/1444
جلد نمبر:29 فتوی نمبر:154