سوال

محمد عثمان نامی شخص نے اپنی بیوی زہرہ کو رخصتی سے قبل ، طلاق رجعی دی تو بچی کے والدین نے مفتیان کرام سےرجوع کیاتو مفتیان کرام کے فرمانے کے مطابق، دوبارہ نکاح ہوا اور رخصتی ہو گئی ۔کچھ وقت گزرنے کے بعد شوہر کی ،بیوی سے اور اس کی والدہ محترمہ سے لڑائی ہو گئی۔ زہرہ بی بی اپنے والدین کے پاس چلی گئی، کچھ دنوں کے بعدمحمدعثمان اپنے چچا زاداور ایک رشتہ دار کے ساتھ اپنی بیوی کومنانے گیاتوزہرہ بی بی کے والدین رضا مند نہ ہوئے،محمد عثمان کے ساتھ اس کا چچا زاد اور دوسرا رشتہ دار کہنے لگے کہ آپ ہمارے ساتھ زہرہ بی بی کو روانہ کرو توہم اس کو پابند کریں گے تووالدین نے کہا کہ سوچ لو ،اس سے بھی پوچھ لو اور مشورہ کر لو۔ کچھ دیر کے بعد وہ واپس آئے اور کہنے لگے کہ ہم نے اس کو پابند کر لیا ہے، لہذا عثمان کی والدہ اور اس کے نانکے ،اگر آپ کی بچی سے آئندہ لڑائی کریں گے تو آپ کی بچی کو طلاق ہو جائے گی، اس شرط پر محمد عثمان کے دستخط کروا کے آئے تو والدین اور زیادہ پریشان ہوئے،پھر بچی اور بچے کے والدین نے مفتیان کرام سے رجوع کیاتو ایک مفتی صاحب نے فرمایا : اس کا حل یہ ہے کہ محمد عثمان کی والدہ یا اس کے نانکوں میں سے کوئی بھی یہ شرط کرے،پھر عدت گزرنے کے بعد دوبارہ نکاح کر لو، کیونکہ ایک طلاق باقی ہے ،پھر اس طرح شرط پوری کی گئی اور دوبارہ نکاح ہوا۔ دوبارہ نکاح ہوےکو تقریبا ایک سال گزراتھا کہ میاں بیوی دونوں بیٹھے تھے ۔محمد عثمان موبائل دیکھ رہا تھا ،اس کی بیوی نےاس کوکہا کہ مجھے بھی موبائل دکھاؤ تو اس چھوٹی سی بات پر آپس میں بحث ہونے لگی، محمد عثمان ناراض ہو گیا اور کمرے سے باہر چلا گیااور اپنے پڑوس میں رشتہ دار عورت کے سامنے کہنے لگا کہ:” بس میرے سے فارغ ہے“ تو بچی کے والدین محمد عثمان کولیکر مفتی صاحب کے پاس حاضر ہوئے،مفتی صاحب نےان دونوں عورتوں سےفون پر بات کی تو ایک عورت نے موبائل پر گواہی دی کہ محمد عثمان نے کہا تھا کہ” میں نے چھوڑ دیا ہے“ دوسری عورت نے بات نہیں کی تو مفتی صاحب نے محمد عثمان سے فرمایا کہ حلفاً بتا کہ تو نے کیا کہا؟ محمد عثمان کہنے لگا کہ میں نے کہا تھا کہ میں (چھوڑ دیساں،میں چھٹی کرا دیساں) میں چھوڑ دوں گا ،میں چھٹی کرا دوں گا۔ مفتی صاحب نے کہا کہ گواہی کامل نہیں ہے اور محمد عثمان کے حلفا کہنے کی صورت میں نکاح باقی ہے، کچھ وقت کی بات ہے کہ محمد عثمان اپنے رشتہ داروں کےہمراہ نماز پڑھنے کے بعد ، گھرآ رہا تھا کہ راستے میں محمد ماجد اور محمد فاروق نے پوچھا کہ کیا بنا تیری بیوی کا؟ تو وہ کہنے لگا کے میں فارغ کر چکا ہوں(میں فارغ کیتی ودا ھاں) جب یہ بات زہرہ بیوی کے والدین کو معلوم ہوئی تو انہوں نے ماجد اور فاروق کو بلایا کہ اگریہ بات سچی ہے تو آپ مفتی صاحب کے سامنے قرآن سر پر رکھ کر گواہی دیں گے؟ محمد ماجد اور محمد فاروق نے کہا کہ گواہی کیلئے ہم حاضر ہیں ۔یہ تھی صورت حال۔اب پوچھنا یہ ہے کہ جب تیسری مرتبہ محمد عثمان اپنی بیوی کے بارے میں اس طرح کے الفاظ کہے ہیں تو کیا نکاح باقی ہے یا نہیں؟ براہ مہربانی شرعی رہنمائی فرمائیں ۔

جواب

الجواب حامداً ومصلیاً

صورت مسئولہ اگر حقیقت پر مبنی ہے تواگر محمد عثمان نے ”میں فارغ کیتی ودا ھاں“ (میں فارغ کر چکا ہوں) طلاق کی نیت سے کہا ہے تو اس کی بیوی کو تیسری طلاق بھی ہو چکی ہےاور اگر یہ جملہ اس نے طلاق کی نیت سے نہیں کہا تو تیسری طلاق نہیں ہوئی اور نیت کے سلسلہ میں بھی شوہر ہی سے حلفا ًپوچھا جائے گا کہ آیا طلاق کی نیت تھی یا نہیں؟

لما فی تنویر الابصار مع الدر المختار:(4/516،بیروت)
الکنایات(لا تطلق بھا) قضاء(الا بنیۃ او دلالۃ الحال)وھی حالۃ مذاکرۃ الطلاق او الغضب
وفی الفقہ الحنفی:(2/270،الطارق)
الکنایۃ:وھو الفظ الذی لم یوضع للطلاق ولکن یحتمل الطلاق وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔ فلا یقع فیھا الطلاق الا بالنیۃ أو دلالۃ الحال وھی حالۃ مذاکرۃ الطلاق أو الغضب
وکذافی الفقہ الاسلامی:(9/6642،رشیدیہ)
وکذافی القد وری:(172،الخلیل)
وکذافی الھندیة:(1/374،رشیدیہ)
وکذافی القرآن الکریم:(البقرہ آیت نمبر229،230)
وکذافی الصحیح البخاری:(2/300،رحمانیہ)
وکذافی سنن ابی داؤد:(1/317،رحمانیہ)
وکذافی سنن الدار قطنی :(4/20،دار الکتب)
وکذافی السنن الکبری للبیھقی:(7/546،دار الکتب)

واللہ اعلم بالصواب
ضیاء الرحمان غفرلہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
8/2/2023/15/7/1444
جلد نمبر:29 فتوی نمبر:11

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔