الجواب حامداً ومصلیاً
صورت مسئولہ میں سال گزرتے ہی زکوۃ فرض ہو جاتی ہے،اگر کوئی عذر نہ ہو تو فورا ادا کرنی چاہیئے لیکن اگر کوئی عذر ہو تو تاخیر کر سکتا ہے،وہ بھی زیادہ سے زیادہ ایک سال تک کی سال سے زیادہ تاخیر کرنا گناہ ہے۔
لما فی الشامیہ:(3/227،رشیدیہ)
فیأثم بتأخیرھا الخ)ظاھرۃ الاثم بالتاخیر ولو قل کیوم او یومین لانھم فسروا الفور بأول اوقات الامکان وقد یقال: المراد ان لا یؤخر الی العام القابل لما فی البدائع عن المنتقی۔۔۔۔۔۔۔۔اذا لم یؤد حتی مضی حولان فقد أساء واثم
وفی الھندیة:(1/170،رشیدیہ)
وکذافی الفقہ الحنفی:(1/359،الطارق)
وکذافی الفقہ الاسلامی و ادلتہ:(3/1813،رشیدیہ)
وکذافی المحیط البرھانی:(3/154،بیروت)
وکذافی الفتاوی التاتارخانیہ:(3/134،فاروقیہ)
وکذافی خلاصة الفتاوی:(1/234،رشیدیہ)
وکذافی الفتاوی الولوالجیة:(1/194،الحرمین شریفن)
واللہ اعلم بالصواب
ضیاء الرحمان غفرلہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
26/3/2023/9/4/1444
جلدنمبر:30 فتوی نمبر:1