سوال

محمد اکبر فوت ہو گیا،اس کے تین بیٹے اصغر،محمد عمران،فہیم،دو بیٹیاں سلمہ اور جمیلہ اور بیوی رقیہ ہے پھر تقسیم میراث سے پہلے محمد اکبر کا بیٹا محمد عمران فوت ہوگیااور محمد عمران کے دو بیٹے محمد اقبال اور محمد شریف اور ایک بیٹی صباء ہے۔اب ان میں میراث کیسے تقسیم ہوگی اور ہر وارث کو کتنا حصہ ملےگا؟

جواب

الجواب حامداومصلیا

مرحوم نے بوقت انتقال جو بھی مال و جائیداد منقولہ (جیسے سونا،چاندی، نقدی،زیورات،برتن اور کپڑے)و غیر منقولہ (جیسےدوکان ، مکان ،پلاٹ وغیرہ )غرض جو بھی چھوٹا بڑا سامان چھوڑا ہو، نیز مرحوم کا اگر کسی کے ذمہ قرضہ ہے یا مرحوم کےواجبات اگر کسی فرد یا ادارے کی ذمہ ہوں تو وہ سب بھی مرحوم کا تر کہ شمار ہو گا۔
اس کے بعد میت کے ترکہ کے ساتھ چند حقوق متعلق ہوتے ہیں جنہیں ترتیب وار ادا کرنا ضروری ہے:(1)میت کے دفن تک تمام ضروری مراحل پر ہونے والے جائز اور متوسط اخراجات نکالے جاتے ہیں،اگر کوئی بالغ وارث یا کوئی اپنی طرف سے احساناًادا کر دے تو پھر نہیں نکالے جاتے۔ (2)اگر میت کےذمہ کسی کاقرض ہو تو باقی مال سےاس کو ادا کیا جاتا ہے،اگرچہ سارا مال خرچ ہو جائے ،نیز اگر مرنے والے نے اپنی بیوی کامہر ادا نہیں کیا تھا اور بیوی نے خوش دلی سے معاف نہیں کیا تھا تو وہ بھی قرض شمار ہوتا ہے۔ (3)اگر میت نے کسی غیر وارث کے لئے جائز وصیت کی ہو تو بقیہ ترکہ کی تہائی تک اس وصیت کو پورا کیا جاتا ہے۔ (4)ان تمام حقوق کی ادائیگی کے بعد جو بھی ترکہ بچے خواہ زمین ہو یا فصل وغیرہ ہواس کو درج ذیل طریقے سے تقسیم کیا جائے گا۔
مرحوم کے کل ترکہ کے 192برابر حصے کئے جائیں گے،ان میں سے 42 حصے(٪21.875)اصغر کو،42 حصے (٪21.875)فہیم کو،21حصے(٪10.937)سلمہ کو،21حصے(٪10.937)جمیلہ کو،31حصے(٪16.145)رقیہ کو،14حصے (٪7.291)اقبال کو ،14حصے(٪7.291)محمدشریف کو،7حصے(٪3.645)صباءکو دیے جائیں گے۔

مزید تفصیل کے لئے نقشہ ملاحظہ فرمائیں۔
نمبر شمار ورثاء عددی حصہ فیصدی حصہ
1 رقیہ 31 ٪16.15
2 اصغر 42 ٪21.88
3 فہیم 42 ٪21.88
4 سلمہ 21 ٪10.94
5 جمیلہ 21 ٪10.94
6 اقبال 14 ٪7.30
7 محمد شریف 14 ٪7.30
8 صباء 7 ٪3.65
میزان 8 192 ٪100

 

 

لمافی الھندیة:(6/448،رشیدیہ)
واما النساء فالاولی البنت ولھا النصف اذاانفردت وللبنتین فصاعدا الثلثان…………واذا اختلط البنون والبنات عصب البنون والبنات فیکون للابن مثل حظ الانثیین
وکذافی البحر الرائق:(9/374،رشیدیہ)
وللزوجۃ الربع ای للزوجۃ نصف ما للزوج فیکون لھا الربع حیث لا ولد ومع الولد الابن وان سفل الثمن

واللہ اعلم بالصواب
کتبہ:فیصل نذیر غفرلہ ولوالدیہ
دارالافتاءجامعۃالحسن ساہیوال
14،9،1443/2022،4،16
جلد نمبر:27 فتوی نمبر:11

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔